کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 55
حکماً اس سے ہٹادیا۔ پھر وہ ایک مدت تک ایک حلوائی کی دکان کی ایک کوٹھڑی میں چُھپ کر حدیث پڑھاتے رہے۔ اس کو بھی اس نے حکومت سے کہہ کر بند کرادیا۔ ایک دفعہ حدیث کی ایک کتاب ”سفر السعادۃ “ ( تصنیف علّامہ مجد الدین صاحب قدس سرہ ) مکّہ میں آئی۔ اور شائقین حدیث نے اس کی ترویج چاہی تواس کوبھی اس نے جاری نہ ہونے دیا۔ خاکسار نے مکّہ مکرمہ میں چار مہینے رہ کر ان حالات کوبچشم خود ملاحظہ کیا۔ صرف سُنی سنائی باتوں کوبیان نہیں کردیا۔ [1] مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے مولوی رحمت اللہ کیرانوی صاحب کو مذکورہ کمیٹی کا صدربیان کیاہے۔ چنانچہ یہ صدر صاحب ترکانِ عثمانی اور حکومت نجد کے درمیان عقیدہ وعمل جوخلیج حائل تھی اس کو وسیع سے وسیع تر بیان کی برطانوی سامراج کی ڈپلومیسی کوبروئے کار لانے میں سر گرم ومشغول تھے۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کےلیے مقامی مسائل میں براہ راست توغیر ملکی دخل نہیں دے سکتاتھا۔ اس لیے اس کمیٹی نے ترکان عثمانی کے مذہبی عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ الکل رحمہ اللہ کے مسلک کوسیاسی رنگ میں پیش کیاتاکہ وہ مشتعل ہوکر حضرت میاں صاحب کومصاحب میں مبتلاکردے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا یہ مشغلہ کوئی عجوبہ نہیں تھا۔ راقم الحروف ۱۹۵۰ء میں داراالعلوم تقویہ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک پڑھتا تھا اُسی زمانے میں دارالعلوم دیوبند کےمتعلق اخبارات ہند میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے اہل حدیث طلباء کو دارالعلوم دیوبند سے خارج کردیا۔
[1] (نزہۃ الخواطرج ۸۔ ص۵۷ [2] پورانام یہ ہے اور یہ حوالے مطبع رسول ملٹری آرفنھ (لدھیانہ ) ص ۲۶۔ ۲۳ میں ل سکتے ہیں۔