کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 54
گئی کہ وہابیوں کاسرغنہ حج کرنے آرہاہے اگر محفوظ چلاگیا تو یہ وہابیوں کی فتح ہوگی۔ اس خبر کےبعد وہاں ایک کمیٹی جس کے مخصوص چار اصحاب تھے۔ (۱)مولانا رحمت اللہ کیرانوی (۲) حاجی امداداللہ ( ۳)مولوی عبدالقادر بدایونی (۴)مولاناخیر الدین اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ اشخاص کاتعارف کرایاجائے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی :۔ مولوی صاحب موصوف مغربی یوپی مظفر نگر کے ایک قصبہ ”کیرانہ“ کے باشندے تھے۔ ان کے رفیق ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی عیسائی مذہب کے متعلق بہت وسیع اور گیری معلومات رکھتےتھے۔ انہی ڈاکٹر صاحب کی رفاقت میں مولوی رحمت اللہ صاحب کو بھی عیسائیت پر کافی عبور ہوگیا۔ پادریوں سے بعض اہم مناظرے کئے اور ان کے رَد میں کتابیں لکھیں۔ موصوف ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے اور وہاں آباد ہوگئے۔ وہاں انہوں نے اہل حدیث اور ان کے مسلک پر کیا کیانوازشیں کیں۔ اس پہلو پر ان کے معاصر اور زخم خوردہ مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے روشنی ڈالی ہے۔ ”مولوی رحمت اللہ مذکور کو اگرچہ عیسائیوں کے رَد وجوابات میں باعانت۔۔ ڈاکٹروزیر خاں بڑ ادخل رہاہے۔ مگر اسلامی علوم خصوصاً قرآن وحدیث میں اس کو چنداں مہارت نہیں ہے اور اسی وجہ سے بلاواسطہ تقلید سابقین قرآن وحدیث پڑھنے پڑھانے اور اس پرعمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ اور جولوگ بلاواسطہ پچھلے علماء کے قرآن وحدیث پڑھیں یا اس پر عمل کریں ان کو وہ مکہ مکرمہ میں چین نہیں لینے دیتے۔ ایک بزرگ ( شیخ محمدنامی) حرم محترم میں حدیث پڑھایاکرتےتھے۔ اس کو
[1] شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک۔ ص ۲۶۶