کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 52
نے بھی ان کے ساتھ سخت کاروائی کرنی چاہی۔ اور سب کسی نہ کسی طرح بچ گئے۔ قاضی سلیمان کوجب بمبئی میں معلوم ہوگیا کہ وہ گرفتار کئے جانے والے ہیں، تو اپنے بعض دوستوں کی مدد سے بغداد چلے گئے، مگر قاضی محمد مراد کسی طرح بھی بچ نہ سکے اور کلکتہ پہنچتے ہی گرفتار ہوگئے۔ وہابیت کا مقدمہ قائم ہوا، دوران مقدمہ میں جیل کے اندر انہیں ایسی سخت تکالیف برداشت کرنا پڑیں کہ ان کے صدمے ہی سے انتقال کرگئے اس واقعہ کے بعد حجاز میں وہابیت کے متعلق از سر نو سرگرمی پیدا ہوگئی۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تمام ہندوستانی علماء ہر وقت خطرے میں رہنے لگے۔ جھوٹے الزامات کا بازار گرم ہوگیا۔ جس طرح ہندوستان میں کسی کو مصیبت میں پھنسانے کے لیے اُسے وہابی کہہ دینا کافی تھا اگر چہ غلط ہی ہو ‘اسی طرح مکّے میں بھی یہ الزام ذاتی عداوتوں اور انتقام کا ایک زبردست آلہ بن گیا۔ ا ور اس اعتبار سے حکومت اسلامیہ، اور حکومت کفار دونوں برابر ہوگئے۔ ”وہابیت کا رد“ اسی زمانے میں علمائے مکّہ نے والدمرحوم سے کہاکہ وہابی عقائد کی کتابیں اردومیں ہیں، جنہیں وہ سمجھ نہیں سکتے، نیز نجدی عقائد کا بھی ردکافی طور پرنہیں ہواہے۔ شیخ احمد وحلان نے اس بارے میں خاص طور پر زور دیا۔ اور اسی طرح والد مرحوم نے ایک کتاب نہایت شرح وبسط کے ساتھ لکھی جواُن کی تصانیف میں سب سے بڑی ہے۔ ا س کانام ’’نجم [1]۔۔ الرجم الشیاطین“ ہے۔ یہ دس جلدوں میں ختم ہوئی ہے او ر ہر جلد بہت ضخیم ہے۔ اس کی ترتیب اس طور پر ہے کہ ایک سوچودہ مسئلے مابہ النزاع منتخب کیے ہیں، اتنی تعداد جزئی جزئی اختلافات کے استقساء کی وجہ سے ہوگئی ہے۔ ہر مسئلے کے لیے ایک باب قائم کیاہے اور اس میں پہلے قرآن سے، پھر احادیث سے، پھر اقوال علماء سے رَدکا التزام
[1] اشاعۃ السنۃ ج ۶ شمارہ ۱۰ص ۲۸۹