کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 50
والدمرحوم نے شریف کو ان لوگوں کےبرخلاف سخت برانگیختہ کردیا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ قاضی محمد مُراد طائف گئے۔ جب واپس آئے توشیخ عبداللہ مراد، امام حنفی ان سے ملنےگئے اور دستور کےمطابق سلام کے بعد ”زیارت مقبول [1]“کہا۔ جس سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر کی زیارت تھی۔ قاضی صاحب نے جواب دیاکہ میں کسی قبر کی زیارت کےلیے نہیں گیاتھا بلکہ محض تفریح کے لیے گیا تھا۔ اس بات کا بہت چرچا ہوا، اور شریف تک پہنچائی گئی۔ اور اس کے معنی یہ ٹھہرائے گئے کہ یہ لوگ بھی محمد بن عبدالوہاب کی طرح قُبورِصالحین کی زیارت کےمخالف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند دنوں کے بعد اچانک ا س جماعت کے اکتیس آدمی گرفتار کرلیے گئے، جن میں مولانا رحمت اللہ صاحب ”اظہار الحق“ بھی تھے، لیکن یہ بعد کو رہا کردیے گئے کیوں کہ انہوں نے اپنی حنفیت کے بہت واضح دلائل پیش کردیے تھے۔ شریف نےایک مجلس مقررکی اور والد مرحوم سے کہا کہ ان لوگوں کےعقائد کی تحقیقات کریں۔ اُن پر یہ الزام لگایا گیاتھا کہ وہ بھی محمد بن عبدالوہاب کی جماعت سے ہیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا۔ اس پرو الد مرحوم نے سترہ سوال مرتب کرکے پیش کیے، جن میں وجوب تقلیدشخصی، استحباب قیام، زیارت ِ قبور کےلیے سفر اور استمداد وتَوسّلُ بالصالحین وغیرہ سوالات تھے۔ افسوس ہے ا س موقع پر بُجز تین شخصوں کے اور سب نے تقّیہ کیا اور کسی نے بھی استقامت نہ دکھائی۔ مولوی محمد انصاری، مولوی لطیف اور قاضی مُراد نے بڑی جرأت دلیری کے ساتھ اپنے صحیح عقائد پیش کردیے اور کہا۔ اگر قرآن وسُنّت پر عمل کرنا اور بدعت سے اجتناب کرنا جُرم ہے تو ہم مجرم ہیں۔ اور ہر طرح
[1] آزادکی کہانی خود آؔزاد کی زبانی، طبع انڈیا ص ۸۴تا ۹۲