کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 49
لیکن یہاں بھی اس کے برخلاف مُتعدد اسباب موجود تھے۔ سب سے پہلے یہ کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور ان کی جماعت سے عُلمائے حجاز وعوام کوسخت تعصُب وعناد تھا پھر سلطنت عثمانیہ نے پولیٹیکل اغراض ومصالح سے وہابیوں کو بہت بدنام کیاتھا اور وہابی ہونے کو عملاً ایک بہت بڑا جُرم قرار دے رکھا تھا۔ ان اسباب سے البلد الامین۔۔۔۔ (مکّہ) میں وہابیوں کی جماعت کے لیے امن نہ تھا۔ اور وہ ایک باغیانہ جماعت سمجھی جاتی تھی۔ ابتداء میں عملاًحجازاور گورنمنٹ کواس تحریک کی خبر نہ تھی جوہندوستان میں شروع ہوئی تھی۔ بلکہ جب مولانا اسماعیل رحمہ اللہ نے مولانا سید احمد صاحب کے ساتھ حج کا سفرکیا تویہ وہاں بہت اچھا اثر چھوڑ آئے تھے، اس لیے وہابیہ ہندکی جماعت سے کسی کوکوئی سُوء ظن نہ تھا۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ کی حق گوئی :۔ لیکن ہندوستانی عُلمائے مقیمین نے یہ فتنہ اٹھا یا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اس میں سب سے بڑا حصّہ والدمرحوم کا تھا، اُن کے تعلقات، شریف اور قسطنطنیہ، دونوں سے گہرےتھے۔ انہی نےعلمائے حجاز اور شریف کومطلع کیا کہ یہ جماعت باعتبارِعقائد، محمد بن عبدالوہاب کی جماعت ہے اور ہندوستان سےخاص اس لیے آئی ہے کہ یہاں اپنی تحریک پھیلائے۔ ثبوت میں تقویۃ الایمان اور بعض دوسری کتابوں کے حسبِ حال مطالب عربی میں ترجمہ کرکے شائع کردیے۔ اس زمانے میں ہندوستانی علمائے وہابیہ کی جوجماعت وہاں تھی اُس میں مولوی انصاری سہارنپوری، مفتی محمد مُراد بنگالی، شیخ عبدالطیف، قاضی محمد سلیمان جوناگڑھی بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جوہندوستان میں اپنا مسلک اور تصانیف شائع کرچکے تھے، اورحکام کومخالف پاکر ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
[1] مسودے میں یہ جگہ خالی ہے۔