کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 48
سے سخت مذہبی مخالفت برپا تھی۔ مخالفین اُسے نقصان پہنچانے کےلیے ہرطرح کی کوششیں کرتےتھے۔ ایک بڑی کوشش یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کویقین دلاتے تھے کہ یہ جماعت اُس کےخلاف ہے اور جہاد کرنا چاہتی ہے جس کے باورکرنے میں گورنمنٹ کوزیادہ پس وپیش نہ ہوا، کیونکہ جومشہور خاندان وہابیوں کے بنگال اور پٹنے کے گرفتار ہوئے تھے۔ اُن کے یہاں ایک بہت بڑی تعداد ایسی تحریرات کی برآمد ہوئی جن میں انگریزوں کےبرخلاف دعوت دی گئی تھی اور ا س سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ یہ جماعت عام طور پر اس کا اعلان بھی کرچکی تھی اورا س موضوع پر بعض کتابیں بھی لکھی گئی تھیں۔ ان اسباب سے اُس زمانے میں گورنمنٹ کوجس کسی پر وہابی ہونے کا شُبہ ہوجاتا۔ فوراً گرفتار کرتی، پھانسی ورنہ کم از کم کالے پانی یاحبس دوام کی سزادیتی۔ چنانچہ اس جماعت کے سینکڑوں علماء، اُمراء تاجر کالے پانی بھیجے جاچکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جن پر مقدمے چلائے جاتے تھے، اُن کےتمام اہل وعیال بھی تباہ ہوجاتے تھے۔ کیونکہ یاتو وہ بھی گرفتار ہوتےتھے، ورنہ جائیداد کی ضبطی کی وجہ سے خودبخود تباہ ہوجاتےتھے۔ چنانچہ مشہور مقدمہ ٔ وہابیان بنگالہ اور خاندان صادق پُور کے نتائج یہی ہوئے جوبہت مُتمول تھا۔ اسی طرح کلکتے کے مشہور تاجرانِ چرم، امیرخاں اور حشمت خاں کے خاندان بھی برباد ہوئے۔ ان اسباب کی وجہ سے اس جماعت کےعُلماء نے بجُز اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ ہجرت کرجائیں۔ بہت سے لوگ توغدر کے موقع ہی پر چلے گئے تھے اور جواس داروگیر سے کسی طرح بچے، انہوں نے بھی حجاز کودارالامن سمجھ کر ہجرت کی۔ چنانچہ غدر کے بعد علمائے وہابیہ کی ایک بڑی جماعت مکہ معظمہ میں فراہم ہوگئی تھی۔