کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 43
پانچواں مقدمہ سازش :۔ مارچ ۱۸۷۱ء میں قائم کیاگیا۔ اس مقدمہ میں کل سات ملزم تھے۔ (۱) پیر محمد (۲) امیرخان ( ۳) حشمداد خاں (۴)مبارک علی (۵) تبارک علی (۶) حاجی دین محمد (۷) امین دین۔ ان سب کا تعلق اہل صادق پور سے تھا یعنی اہل صادق پور کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی تھی۔ اور جوکچھ بیان ہواہے اس کا تعلق صرف پٹنہ سے ہے وہابیوں کا دوسرا مرکز دہلی تھا جس کے متعلق جناب ڈاکٹر قیام الدین احمد لکھتے ہیں :۔ نذیر حسین محدث دہلوی :۔ نذیر حسین تفسیر اور فقہ اسلامی کے مشہور استاد شروع میں سورج گڑھ ضلع منگیر کے متوطن تھے بعد میں دہلی میں جابسے۔ شروع میں سیدا حمد سے ان کی ملاقاتوں نے ان کو کچھ متاثر اور اس تحریک کا ہمدرد بنایاہوگا گو اس کا کوئی یقینی ثبوت نظر نہیں آتا۔ مگر امیدعلی کے بیان نے نذیر حسین کو یہ کہہ کر صاف صاف ملوث کردیا کہ فیروز شاہ کے قاصد آئےتھے تووہ بھی موجود تھے۔ نذیر حسین کے گھر کی تلاشی سے بہت سے مشتبہ قسم کےخطوط نکلے۔ ان میں سے بعض وہابیوں جیسے جعفرتھانیسری اور مبارک علی عظیم آبادی کےخطوط بھی نذیر حسین کے نام تھے۔ ایک خط نذیر حسین کالکھا ہوا سرحد کے وہابی سردار عبداللہ کے نام بھی تھا۔ ریلی نے ضابطہ ۳ کےتحت ان کی گرفتاری کی سفارش کی لیکن وہ ایک مشہور ومعروف عالم تھے، اور ان کے خلاف کسی اطمینان بخش شہادت کے بغیر حکومت اس انتہائی اقدام سے منامل تھی۔ حکومت نے اس معاملے کی رپورٹ حکومت پنجاب کو( جس کے ماتحت خطۂ دہلی تھا) بھیج دی اور درخواست کی کہ وہ جواقدام مناسب سمجھے کرے۔ حکومت پنجاب نے ان کو احتیاطی طور پر چھ ماہ جیل میں قید رکھنے کاحکم نافذ کیا مگر اس کے بعد فوری رہا کردیا۔ [1]
[1] ہندوستان میں وہابی تحریک ص ۳۱۵