کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 40
اور دوسرے سامان نقل وحمل سے آراستہ وپیراستہ مہم پرروانہ ہوتی ہے اور اس کے کروفر کے ساتھ اس فوج کے آرام وآسائش کی خاطر پورے پنجاب کا خون چوس لیاگیاتھاجس کا نقشہ The India Musalman صفحہ ۱۸پر اس طرح کھینچا گیاہے۔ دوسری شام کو ایک دستہ امبیلا کی گھاٹی تک پہنچ گیا ہماری پشت پر کافی سپاہ اورثوب خانے تھے اور یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ حملہ آور فوج کی مدد کا اتنا کافی انتظام تھا اس لیے ۲۰ کو جنرل نے محسوس کیا کہ جن قبائل کی دوستی کا اسے اعتماد تھاو ہ ڈانواں ڈول ہورہے ہیں اور دوروز بعد اس نے حکومت کو تاردیا کہ فوج گھاٹی کوعبور کئے بغیر رک گئی ہے۔ ۲۳ کو قبائل نےاپنی مخالفت کا اعلان کردیا اورچند دن بعد سوات کے مذہبی رہنمانے بھی دشمن کے ساتھ اپنی رفاقت کا اعلان کردیا اسی دوران سرحد سےحکومت کو کمک کےلیے تار موصول ہونےلگے۔ فیروز پور جمنٹ کا ایک دستہ روانہ ہوا۔ ایک دوسرے پیادہ دستہ نے پشاور سے پچھم کا رخ کیا۔ سیالکوٹ اور لاہور سے بھی کمک روانہ ہوئی۔ تین ہفتوں کے اندر اندر پنجاب کی چوکیاں سپاہ سےاس طرح خالی ہوئیں کہ میاں میر کا کمانڈر نگ افسر مشکل سے چوبیس سنگینوں کی سلامی پیش کرسکا۔ جنگ امبیلا کی یہ پوزیشن دیکھتے ہوئے کسی کے وہم وگمان میں نہیں آسکتا کہ مجاہدین کوشکست ہوسکتی ہے۔ لیکن رشوت ایسی ملعون شئی ہے کہ بڑےبڑے مجاہد ومتقی تک کو اپنے ارادہ سے متزلزل کردیتی ہے جس کے متعلق مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں : ”اگر لاکھوں روپے دیکر ان بگڑے ہوئے افغانوں کو راضی نہ کیا جاتا توایک آدمی بھی انگریزی فوج کا واپس نہ آتا۔ “ [1]
[1] ہندوستان میں وہابی تحریک ص ۳۱۵