کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 38
نےا ن لوگوں سے جہاد کا فتویٰ لکھوایا۔ پھر اس پرعلماء دہلی کے دستخط ومواہیر ثبت کرانا چاہا۔ ایک روز بخت خاں مع افسروں باغی جامع مسجد دہلی میں آیا اور سپاہیوں کی معرفت شاہ احمد سعید ‘شاہ عبدالعزیز خانقاہی اور مفتی صدر الدّین اور نواب قطب الدین خاں صاحب اور مولوی کریم اللہ اور مولوی فرید الدّین اور مولوی ضیاء الرحمٰن اور مولوی نوازش علی اور مولوی رحمت اللہ بریلوی دہلوی ( پہلے مولوی رحمت اللہ کیرانوی ہیں ) اور مولوی حفیظ اللہ اور مولوی سید محمد حسین صاحبان کو بلوایا۔ پھر مولوی سرفراز علی نے بحکم بخت خاں وہ فتویٰ پڑھ کر سنایا جب وہ فتویٰ تمام ہوا توبخت خاں وغیرہ باغی افسروں نے علماء کوحکم دیا کہ اس فتویٰ پر اپنے اپنے دستخط کردیں ورنہ سب قتل کئے جائیں گے پس سب نے بخوف جاں کرہاً وجبراً دستخط کردیے اور اگر وہ دستخط نہ کرتے تواسی وقت سب تلوار سے قتل کئے جاتے یاتوپ سے اُڑا دیے جاتے۔ “ [1] آپ نے دیکھا کہ مذکورہ بالا عبارت میں صرف علماء اہلحدیث کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ علماء احناف بھی شامل ہیں اگر فتوے جہاد پر جبراً وکرہاً دستخط کئے تو احناف واہل حدیث دونوں نے کیے۔ لیکن اہل حدیث کو بدنام کرنے کےلیے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کےمصنف نے پوری عبارت ہی نقل نہیں کی۔ اس کےبعد لکھا ہے : ”دوسری دلیل یہ ہے کہ ان ہی مجبور ہوکر دستخط کرنے والوں مولویوں سے مولوی حفیظ اللہ خاں اور مولوی نذیر حسین اور ان کے بیٹے مولوی شریف
[1] (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص ۱۰۳)