کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 37
ابوسعید محمد حسین بٹالوی کی عبارت پرتبصرہ کرنےسے قبل ضروری ہے کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ءکےمصنف نے جوتمہید کے طور پر لکھاہے اس کا تجزیہ کردیاجائے موصوف نے فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے والوں میں صرف اہل حدیث علماء کرام کا ذکر کیا ہے، (۱)سیدمحمد نذیر حسین (۲) حفیظ اللہ خاں (۳) اور عبدالقادر مولوی عبدالقادر کا شمار جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کےمصنف کےاس مقام پرعلماء اہلحدیث میں کیاہے۔ المعارف لاہور ج۹ شمارہ ۵مئی ۱۹۷۶ء جمادی الاوّل ۱۳۹۶ء صفحہ پر مولوی عبدالقادر لدھیانوی نے لکھا ہے :۔ ۳۴علماء کرام نے فتوے جہاد پردستخط کئے ہیں جن میں صرف ایک مولوی عبدالقادر ہیں۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کےمصنف نے ایک ہی عبدالقادر کودوشخصیت پیش کیا۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اسے مورخ کہیں ومحقق کہیں یابددیانت، متعصب مصنف کہیں ؟ جن علماء کرام کی موجودگی میں مولوی سرفراز نے فتوے جہاد پڑھ کر سنایاکیا اس وقت علماء اہل حدیث کےعلاوہ کوئی دوسرا عالم موجود نہیں تھا؟ آئیے ابوسعید محمد حسین بٹالوی کی عبارت دیکھیں انہوں نے کیالکھا ہے ملاحظہ فرمائیں : بےشک علماء دہلی نے فتویٰ جہاد پر مواہیر کی ہیں مگربخوف گولی وشمشیر کے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب باغی فوج دہلی میں آکر جمع ہوئی اور بخت خاں بریلی سے آیا اورمولوی رحمت اللہ اور مولوی عبدالقادر مع اپنے فرزند وں کے بخت خاں کے ساتھ شامل ہوئے توبخت خاں
[1] ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص ۱۰۳