کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 36
اس کےبعدبھی کوئی اعتراض کی گنجائش ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایاگیا ہے کہ : میاں نذیر حسین کے سوانح نگار نے دستخط کرنے سے بھی انکار کردیا۔ ا س کے متعلق بھی کہاجاسکتاہے کہ جس وقت الحیات بعد الممات لکھی گئی اس وقت تک صحیح حالات معلوم نہ ہوسکے۔ ہندوپاک کوآزادی ملنے کےبعدخاص کر جناب عتیق صدیقی صاحب کا بڑا کارنامہ ہے کہ فتویٰ جہاد اور اس پردستخط کرنے والوں کے نام کو فوٹو اسٹیٹ کراکر شائع کردیا۔ جس سے فضل حسین مظفر پوری کایہ کہنا کہ الشیخ سید محمد نذیر حسین نے فتوے پردستخط نہیں کئے غلط ثابت ہوگیا۔ اب فضل حسین صاحب کی عبارت پیش کرنا عبث ہے۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کامصنف لکھتاہے : ”مولوی حفیظ اللہ خاں، میاں نذیر حسین اور مولوی عبدالقادر علمائے اہل حدیث کےسلسلے میں جماعت اہل حدیث کے وکیل اور اشاعۃ السنۃ لاہور کے ایڈیٹر مولوی ابوسعید محمد حسین شیخ رحیم بخش بٹالوی لکھتے ہیں :۔ ”مولوی سرفراز علی نے بحکم بخت خاں وہ فتویٰ پڑھ کرسنایا جب وہ فتویٰ تمام ہواتو بخت خاں وغیرہ باغی افسروں نے علماء کوحکم دیاکہ اس فتوے پر اپنے دستخط کردیں ورنہ سب قتل کر دئیے جائیں گے۔ پس سب نے بخوف جان کر ہاً وجبراً دستخط کردیے اگر وہ دستخط نہ کرتے تواسی وقت سب تلوار سے قتل کئے جاتے یا توپ سے اڑادیے جاتے “ [1]
[1] علماء ہند کا شاندار ماضی ج۴ ص ۱۹۷