کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 32
مردوں سے قتال کیاتھااس وجہ سے اس کو پناہ نہیں دینی چاہیے تھی جیساکہ اہل کوفہ کا مذہب اس سے قبل بیان کیاگیا۔ اگر ایسانہیں توالشیخ سید محمد نذیر حسین وہابی لیڈر‘عبدالقادر رحمہ اللہ بن عبدالخالق رحمہ اللہ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی عبداللہ غزنوی اور محمد صدیق پشاوری نے جوکچھ کیا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کےموافق کیاکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ ( 29) سورہ التوبہ آیت 6 اور اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے پناہ طلب کرے تواس کو پناہ دو تاکہ وہ اللہ کےکلاس کوسُن لے پھر اسے اس کے امن کی جگہ واپس پہنچادو یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ جانتےنہیں۔ اس کےبعد اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے مصنف نے لکھا ہے کہ ”مولوی نذیر حسین کو اس صلے میں ایک ہزار تین سوروپے انعام ملا“۔ [1] موصوف کے نزدیک انعام کی رقم (۱۳۰۰) ہے۔ لیکن اس کے بعد جولکھا ہے درج ذیل ہے : ” ان لوگوں کو اس خدمت کے صلے میں مبلغ دوسواور چارسوروپے ملےتھے۔ مبلغ سات سوروپے بابت تاوان منہدم کئے جانے مکانات کے ان لوگوں کوعطا کیے گئے تھے۔ یہ لوگ ہماری قوم سے حسن سلوک اور الطاف کےمستحق ہیں۔ “[2]
[1] مولوی نذیر احمددہلوی، احوال وآثار ص ۲۸۔ [2] جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص ۴۱۱ [3] مولوی نذیر احمد دہلوی بڑی احوال وآچار ص ۱۶