کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 23
کوجائزنہیں سمجھتا۔ اور جولوگ بلاواسطہ پچھلے علماء کے قرآن وحدیث پڑھیں یا اس پر عمل کریں ان کو وہ مکہ مکرمہ میں چین نہیں لینے دیتے۔ “ ایک بزرگ ( شیخ محمد نامی) حرم محترم میں حدیث پڑھایاکرتےتھے۔ اس نے ان کو حکماً اس سے ہٹادیا۔ پھر وہ ایک مدت تک ایک حلوائی (عبداللہ نامی) کی دکان کی ایک کوٹھری میں چھپ کر حدیث پڑھاتے رہے اس کوبھی اس نے جب مطلع ہوااندرکرادیا۔ “ ایک دفعہ حدیث کی ایک کتاب ”سفر السعادۃ “ ( تصنیف علامہ محمد الدین صاحب قاموس) کی اشاعت مکّہ میں ہوئی اور شائقین حدیث نے اس کی ترویج چاہی تو اس کو بھی اس نے جاری نہ ہونے دیا۔ خاکسار نے مکہ مکرمہ میں چار مہینے رہ کر اکثر ان حالات کوبچشم خود ملاحظہ کیاہے صرف سُنی سنائی باتوں کوبیان نہیں کردیا۔ “ [1] جس شخص کا یہ حال ہواکہ احادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج واشاعت میں حائل ہوتاہو اس کے دیے ہوئے فتوے کی کیااہمیت ہے؟ اس کافیصلہ قارئین خود کرسکتےہیں۔ شاہ احمد سعید اورعبدالغنی مجددی کےمتعلق جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کےمصنف نےکمال الدین، حیدر حسینی کی تصنیف ، قیصر التواریخ جلددوم پر اعتماد کرتےہوئے لکھاہے :۔ ”مولوی احمدسعید شاہ غلام علی کے نواسے مجتہد اہل سنت وہ جامع مسجد میں علم جہاد کےاٹھانے کے باعث ہوئے اور اہل اثنا عشری شریک اس جہاد کے نہ ہوئے کس واسطے کہ ان کے مذہب میں غیبت امام میں
[1] علماء ہند کا شاندار ماضی ج۴ ص۸۹