کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 22
اس کوصرف علماء اہلحدیث تک ہی کیوں محدود رکھاگیاہے دوسرے علماء کا بھی یہی حال تھا۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کےمصنف نے، مولوی رحمت اللہ، شاہ احمد سعید، شاہ عبدالغنی، مولوی محمد سرفراز، فرید الدین، سیف الرحمٰن الدھیانوی اور عبدالقادر کوجنگ آزادی میں حصّہ لینے والوں میں تاریخ کا ہیرو دکھایا ہتے۔ ہم بھی ترتیب وار ایک ایک پر بحث کرتے ہیں۔ مولانا رحمت اللہ صاحب کےمتعلق مولانانذیر احمد رحمانی لکھتےہیں :۔ مولوی رحمت صاحب کیرانوی :۔ ”مولوی صاحب موصوف مغربی یو۔ پی ضلع مظفرنگر کے ایک قصبہ ”کیرانہ“ کےباشندے تھے۔ ان کے ایک رفیق ڈاکٹر نذیر خاں اکبر آبادی عیسائی مذہب کےمتعلق بہت وسیع اور گہری معلومات رکھتےتھے۔ انہی ڈاکٹر صاحب کی رفاقت میں مولوی رحمت صاحب کو عیسائیت پر کافی عبورحاصل ہوگیا، پادریوں سے بعض اہم مناظرے کئے اور ان کے رومیں کتابیں لکھیں۔ “ [1] موصوف ۱۸۵۷ء کی ناکامی کےبعد ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے اور وہیں آباد ہوگئےتھے، وہاں ان کا مشغلہ کیاتھا اس پہلو پر مولانا محمد حسین بٹالوی روشنی ڈالتے ہیں : ”مولوی رحمت اللہ مذکور کو اگرچہ عیسائیوں کے رووجواب میں باعانت باعانت ڈاکٹر وزیرخاں بڑادخل رہاہے مگر اسلامی علوم خصوصاً قرآن وحدیث میں اس کوچند مہارت نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے بلاواسطہ تقلید سابقین قرآن وحدیث پڑھنے پڑھانے اور اس پر عمل کرنے