کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 21
شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کی ہجرت ۱۸۴۱ء سے۱۸۵۷ء تک سید محمد نذیر حسین رحمہ اللہ بہاری ثم دہلوی قرآن، تفسیر، حدیث ، فقہ اور دیگر فنون پڑھاتے رہے۔ دہلی کے باشاہ کی حکومت تو۱۷۵۷ء میں ہی ختم ہوچکی تھی جبکہ الٰہ آباد کی دیوانی انگریزوں کے ماتحت کردی گئی۔ اس وقت تو ہندواور مسلم سب تماشائی بنے رہے لیکن جب معاشرتی اور معاشی حالات خراب ہونے لگے۔ تب ان کو ہوش آیا تومسلم ہندونےمل کرجنگ آزادی میں حصّہ لیا۔ مفادپرست عناصر مسلمانوں اورہندوؤں دونوں میں موجودتھے۔ ۱۱مئی ۱۸۵۷ء کوجنگ آزادی شروع ہوئی۔ ۱۸۵۷ء میں فتویٰ جہاد شائع ہوا جس پر احناف اور اہل حدیث علماء کرام کے دستخط ہیں۔ لیکن جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد ہی یہ مہم شروع کی گئی کہ جس طرح ہو علماء اہل حدیث کو عام طور پر اور خاص کروہابی لیڈر شیخ الکل سید محمد نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کوبدنام کیاجائے۔ اس بارے میں نئے نئے من گھڑت واقعات زبانی اور تحریری طور پر لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیے پھیلائے گئے۔ اسی نوعیت کا ایک تبصرہ منشی ذکاء اللہ نے کیاہے۔ فرماتے ہیں۔ ”حسن مولویوں نے فتوے پر مہریں کی تھیں وہ کبھی پہاڑی پر انگریز وں سے لڑنے نہیں گئے مولوی نذیر جووہابیوں کے مقتد ااور پیشوا تھے ان کےگھرمیں تو ایک مہم چھپی بیٹھی تھی۔ [1] مذکورہ بالائے حوالہ میں دواعتراض الشیخ الوہابی پرعائد کئےگئےہیں۔ اول جن مولویوں نے فتوے پر مہریں کی تھیں وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں سے لڑنےنہیں گئے۔
[1] جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص ۴۰۸۔ ۴۰۷ [2] جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص ۴۰۸