کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 19
بلکہ غائب ہوگئے ہیں۔ مولانا سید عبدالحی ف ۱۳۴۱تحریر کرتے ہیں :
حدثنا الشیخ الصالح محمود حسن و ہم سےشیخ محمود حسن، حافظ احمد بن مولانا
الحافظ احمدبن مولانا محمد قاسم والمولوی قاسم اور مولوی حبیب الرحمٰن نے بیان
حبیب الرحمٰن وکلہم ثقۃ قالواحدثنا شیخنا کیا(تینوں معتبرہیں)کہ ہم سےمولانا
الثقة الصدوق الحجۃ مولانارشیداحمد رشید احمد گنگوہی نےبیان کیاکہ ان سے
گنگوہی حدثنا الشیخ الزاھد المتقی الادوع مولانا مظفرحسین کاندھلوی نےکہاکہ
الحجة مولانامظفرحسین الکاندہلوی قال میں نےاپنےشیخ مولانااحمد سےدس
سمعت من شیخنا مولاناالسیّد احمدعشرۃ یاتین سنی ہیں جن میں سےنَوکاظہور ہو
اموروقعت منھا تسعۃ ویقیت واحدۃ چکاہے۔ ایک جوباقی ہے وہ آپ کی
وھوغیوبتہ وظھورہ رحمۃ علیہ [1] غیبوبیت اور ظہور کےبارےمیں ہے۔
مولاناعبدالغنی مجددی کےمتعلق اردوکالج کے ایک پروفیسر نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ۱۸۴۱ء میں جب محمد اسحاق رحمہ اللہ دہلوی ہجرت کرکے مکہ معظمہ گئے جب انہوں نے مولانا عبدالغنی مجددی صاحب کو اپناجانشین مقررکیا۔ یہ بھی پروفیسر صاحب کے ذہن کی اختراع ہی ہے اس لیے کہ اپنے دعوے کی تصدیق میں نہ ان کے پاس دلائل ہیں اور نہ ہی شواہد ہیں کہ انہیں قبول کرلیاجائے۔
مولاناعبدالغنی مجددی صاحب ۱۸۱۹ء میں پیداہوئے۔ ۱۸۴۱ء میں وہ ۲۴سال کے تھے اور انہوں نے ۱۸۴۱ء سے ۱۸۵۷ء تک ۱۶سال کے عرصہ میں مجاہدین کی کیاخدمات کیں۔
[1] اہل حدیث اور سیاست ص ۳۵۵