کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 18
مظفرحسین کاندھلوی اورمولانا عبدالغنی دہلوی کوملاکر ایک بورڈ بنادیا جو اس نئے پروگرام کی اشاعت کرکے نئے سرے سے جماعتی نظام پیدا کرے۔ یہی جماعت ہے جوآگے چل کر دیوبندی نظام چلاتی ہے۔ الغرض امام ولی اللہ کی جماعتی تحریک کو نئی نہج پرڈالنے میں شاہ محمد اسحاق کی اس اصابت رائے کا نتیجہ تھا کہ بعدمیں دہلی کےمدرسہ کےنمونہ پر دیوبند میں جو درس گاہ قائم کی گئی اس نے پچاس سال کےعرصہ میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ [1]
مولانا عبداللہ سندھی صاحب کا یہ فرمانا کہ مولانامملوک علی کی صدارت میں مولانا قطب الدین دہلوی، مولا نامظفر حسین کاندھلوی اور مولانا عبدالغنی دہلوی کا ایک بورڈ بنایاتھا۔ یہ ان کی ذہنی اختراع ہے کیونکہ ا س سے قبل کسی مصنف نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس کےعلاوہ مولاناممللوک علی صاحب کی کسی سیاسی سرگرمی کا ذکر نہیں ملتا بلکہ وہ اور ان کے استاد مولانا رشید الدین خاں دہلی کالج مرحوم میں عربی کی تعلیم کےذریعے ایسے ذہن پیدا کررہےتھے جوانگریز سامراج کےمعاون ومددگار ثابت ہوں۔ حق یہ ہے کہ مولانامملوک علی پر اکبر الٰہ آبادی کایہ شعر تھوڑی تبدیلی کے ساتھ صادق آتاہے۔ ؔ
افسوس کہ فرعون کوٹیچنگ کی نہ سُوجھی
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا۔
مولانا قطب الدین دہلوی صاحب وہ صاحب ہیں جنہوں نے ۱۸۷۰ء میں ہندوستان کودارالسلام ہونے کا فتویٰ دیا۔
مولانامظفر حسین کاندہلوی صاحب جن کا عقیدہ تھا کہ سید احمد شہید نہیں ہوئے
[1] منشی ذکااللہ ص ۶۷۶بحوالہ اٹھارہ سوستاون اخبار اور دستاویزیں ص ۴۲۱، اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ص ۴۱۔