کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 17
یعنی ”ادا کےپہلے الفاظ سَمِعْتُ اور حَدَّثَنِیْ اس شخص کےلیے درست ہیں جس نے اپنےاستاذ سے منفرد حالت میں سُنا ہو۔ حَدَّثَنِیْ کی تخصیص اس کے ساتھ جس نے اپنے اُستاذ سے سُنا ہو یہ اہل حدیث کے نزدیک بہت مشہور ہے۔ “
اگراُستاذ سے سماع میں دویازیادہ شریک ہوں تو لفظ حَدَّثَنَا یا سَمِعْنَا کہاجائےگا۔
لہٰذا شیخ الکل رحمہ اللہ نے الشیخ سے حدیث پڑھنے میں اداکے اعلیٰ مرتبہ کو اختیار کیا۔ یعنی سند کے الفاظ سمع منی الاحادیث الکثیرۃ اس بات پردلالت کرتےہیں۔ اس کےعلاوہ مذکورہ الفاظ سے قاری عبدالرحمٰن پانی پتی کی تردید ہوتی ہے۔ اسی طرح اَرواحِ ثلاثہ کےمصنف کی بھی تغلیط ہوتی ہے۔
مخالفین پریہ فرض تھاکہ شیخ الکل رحمہ اللہ کی زندگی میں شیخ الکل رحمہ اللہ کی سند کوسامنےرکھ کر شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کےدوسرے تلامذہ کی اسناد سےخط کاموازنہ کیاجاتا۔ جس طرح مولانا محمد سعید بنارسی نے قاری عبدالرحمٰن پانی پتی سےمطالبہ کیاتھا تاکہ دعویٰ کی حقیقت علماء کرام کے سامنے آشکارا ہوجاتی۔ [1]
دوم :۔ جب علماء احناف نے دیکھاہے کہ سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تحریک سے ہم ہمیشہ علیحدہ رہے۔ اس کا سب سے زیادہ احساس علماء دیوبند کوہوا۔ لہٰذا ان کےسرخیل لیڈرمولانا عبداللہ سندھی نے وہابی تحریک کو دوحصوں میں تقسیم کردی۔ موصوف لکھتےہیں :۔
”مولانا محمد اسحاق مکہ معظمہ میں اپنے بھائی مولانامحمد یعقوب دہلوی کواپنے ساتھ لےگئے اور دہلی میں مولانا مملوک علی کی صدارت میں مولانا قطب الدین دہلوی ‘مولانا