کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 15
خُوب اچھالا۔ ان کےبعد کراچی کے ایک (مرحوم) پروفیسر صاحب نے بھی خوب اس کی تشہیر کی۔ اس لیے مناسب معلُوم ہوتا ہے کہ ا س مسئلے کی قدر سےتفصیل بیان کرجائے۔
مولانا سیّد سلیمان ندوی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں :۔ [1]
مولانا سیدنذیر حسین صاحب کی مولانا شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ صاحب کی شاگردی کا مسئلہ بھی اہل حدیث واحناف میں مابہ النّزاع بن گیاہے۔ ا حناف انکارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاہ صاحب سے بے پڑھے صرف تبرکاً اجازت حاصل تھی اور اہل حدیث ان کو حضرت شاہ صاحب کا باقاعدہ شاگردبناتے ہیں۔ مجھے نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے مسودات میں مولانا نذیرحسین کےحالات کامسودہ ملا۔ جس میں بتصریح مذکور ہے کہ ۱۲۴۹ھ میں شاہ صاحب کے درس ِحدیث میں وہ داخل ہوئے۔ عبارت یہ ہے۔
”درہمیں سال ( ستہ الف ومائتین وتسع اربعین ) حدیث شریف از مولانامحمد اسحاق مرحوم ومغفور شروع فرمُودند وصحیح بخاری ومسلم بہ شراکت مولوی محمد گل کابل ومولوی عبداللہ سندھی ومولوی نور اللہ شرعوانی وحافظ محمد فاضل سورتی وغیرہم حرفاً حرفاً خواندوہدایہ وجامع صغیر بہ معیّت مولوی بہاؤ الدین دکھنی وجد امجد قاضی محفوظ اللہ پانی پتی ونواب قطب الدین دہلوی وقاری اکرام اللہ وغیرہم وکنز الاعمال مُلّا علی متقی علیحدہ شروع فرموندودوسہ جُز۔ ‘‘
اگر یہ کہاجائے کہ نواب صدیق حسن خاں کی شہادت تومعتبر ہے لیکن نواب صدیق حسن خاں اور مولانا سید نذیر حسین مُحدّث دہلوی دونوں ہم مشرب ہیں۔ اس لیے اس کی تائید کسی دوسری جگہ سے ہونی چاہیے۔ اس لیے ہم شیخ الکل رحمہ اللہ کی سند نقل کرتے ہیں۔
[1] شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ص ۱۳۴