کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 12
شاہ محمد نذیر دہلوی رحمہ اللہ اور شاہ محمد اسحٰق رحمہ اللہ کی جانشینی
۱۲۵۸ء ہجری میں ہندوستان سے شاہ محمد اسحاق محدث رحمہ اللہ نے ہجرت کی اورحجاز مقدس میں رہائش پذیر ہوئے۔ ا س وقت دہلی میں شیخ الکل سید نذیر حسین رحمہ اللہ کےعلاوہ نامور علماء کرا موجودتھے لیکن ولی اللّہہی خاندان کی جانشینی صرف شیخ الکل سید نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کےحصّے میں آئی۔ جس کی وجہ سے معاندین نے شیخ الکل کی مخالفت شروع کردی۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہاگیاکہ مولانا سید نذیر حسین رحمہ اللہ شاہ محمد اسحاق کے شاگرد ہی نہیں۔
اگرچہ شیخ الکل رحمہ اللہ کی زندگی میں شیخ محمد تھانوی نے ایک خط ۱۲۹۲ھ میں بنام مولوی محمد حسین لکھا جس میں یہ تصریح موجُود ہے کہ سید نذیرحسین شاہ محمد اسحاق کےتلمیذ ہیں۔
اسی طرح مولانا احمد علی سہارنپور نے مولانا حفیظ اللہ خاں صاحب دہلوی کے نام لکھا جس میں یہ اقرار کیاگیا ہے کہ شیخ الکل رحمہ اللہ شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔
اس کےبعد بات ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن قاری عبدالرحمٰن پانی پتی نے ایک رسالہ ”کشف الحجاب “کے نام سےشائع کیا جس میں وہ تحریر کرتے ہیں:۔
”اسی طرح سید نذیر حسین صاحب اورحفیظ اللہ خاں صاحب کبھی کبھی مسئلہ پوچھنے یا کوئی لفظ جلالین کا پُوچھنے کوجاتےتھے خدمت میں مولانا اسحاق صاحب قدس سرہ کی اور بوقت ہجرت میاں کے ایک ایک حدیث پانچ چھ کتابوں کی میاں صاحب کوسُناکر ایک پرچہ بطور سندکےلیا۔ ا ور حفیظ اللہ خاں صاحب کوتویہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ “[1]
جس وقت کشف الحجاب کوقاری عبدالرحمٰن پانی پتی نے شائع کیاتھااُسی وقت
[1] حیات شبلی ص ۴۶