کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 11
میاں صاحب نےبھی اس فتوے پردستخط نہیں کیا۔ استاد کی مخالفت پر لوگ متحیّر ہوئے اور چھ مہینےتک اس مخالفت کا چرچادہلی میں ہوتارہا۔ چھ مہینے کے بعد جب کتاب طوالع الانوار مکہ معظمہ سے آئی تومیاں صاحب یہ جزئی اس کتاب میں نکال کرشاہ صاحب کے حضور میں لے گئے اور پیش کرکےعرض کیا کہ اب حضور اس فتوے کومنگاکرقلم زد کردیں چنانچہ ایساہی ہوا۔ “[1] مذکورہ بالائے دوفتاوی سے شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ نے اندازہ کرلیاکہ میرے تمام تلامذہ میں سید محمد نذیر حسین کی نظرمسئلہ کی ایک ایک جزئیات پر ہوتی ہے۔ جس میں یہ کمال ہووہ ہی شخص سید احمد بریلوی رحمہ اللہ وہابی کی جماعت کی صحیح ترجمانی اور نگرانی کرسکتاہے۔ اس لیے آپ نے اپنا جانشین فرماکر ہندوپاک کےمسلمانوں پرعظیم احسان کیا۔ علمائے احناف کو عموماً اور علماء دیوبند کوخصوصاً اس سے کچھ خفگی ہوئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ الشیخ وہابی کےخلاف مسئلہ جانشین میں تین طرف سے حملہ کیاگیا۔ اول :۔ قاری عبدالرحمٰن پانی پتی نے توالشیخ محمد نذیر حسین رحمہ اللہ کو شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کی شاگردی سےخارج کرنےکےلیے یہ کہہ دیاکہ کبھی بھی شاہ صاحب کےدرس میں حاضر نہیں ہوئے۔
[1] ہدایۃ المرتاب بردمانی کشف الحجاب طبع انڈیا، ص۶ [2] الحیات بعدالممات طبع ہند ص۵۱