کتاب: حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ - صفحہ 10
اس قسم کے آئے جن میں سے ایک کا جواب صرف الشیخ سید محمد نذیر حسین رحمہ اللہ ”وہابی لیڈر “نے لکھا دوسرے تلامذہ اس کا جواب نہ لکھ سکے۔ وہ فتوی یہ ہے : ”چنانچہ ایک مرتبہ جناب مولاناکی خدمت میں ایک استفتاء اولادناجائزکےمتعلق آیا۔ مولانانے سب شاگردوں کوا س کاجواب لکھنے کےلیے ارشادفرمایا مگر میاں صاحب کے سوا اور کسی نے جواب پر ( غالباً بسبب اشکال مسئلہ ) قلم نہ اٹھایا جواب کو دیکھ کر مولانا بہت خوش ہوئے اور فرمانےلگے کہ اس لڑکے سے وہابیت کی جھلک نظر آتی ہے بڑا تیز ہے۔ “[1] دوسرے استفتاء کوبھی ملاحظہ فرمائیں :۔ ”ایک استفتاء کا سوال یہ تھا کہ کسی نے چار آنے پیسے کسی سے قرض لیے۔ ا س وقت نرخ پیسے کا بیس گنڈہ تھا چار آنے کے بیس پیسے ملے۔ اب ادائے قرض کے وقت پیسے کا نرخ پچیس گنڈہ ہے۔ داعی کو بیس پیسے دیے جائیں گے کہ پچیس۔ شاہ احمد علیہ الرحمۃ نے جواب لکھا کہ جتنے پیسے لیے تھے اتنے ہی اداکئےجائیں گے یعنی بیس پیسے۔ “ شاگردوں نے فتویٰ کوپڑھ لیا جب میاں صاحب نے پڑھا تو عرض کیا کہ حضور پچیس پیسے اداکئےجائیں گے جونرخ پیسے کا ادا کے وقت ہے پوچھا کیوں ؟ عرض کیا پیسوں کی ثمنیت خلقی نہیں ہے بلکہ جعلی ہے مگرجناب شاہ صاحب نے اس پرخیال نہیں فرمایا
[1] ہدایۃ المرتاب بردمافی کشف الحجاب ‘طبع ہندرہ ص۵ [2] ایضاً ص۶