کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 98
الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ} [البقرۃ: 144] ’’(اے نبی!) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیرپھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں، پس ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لیں اور تم لوگ جہاں ہوا کرو (نماز پڑھنے کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کر لیا کرو اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) اُن کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ تب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک آدمی نے نماز پڑھی اور پھر اس کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس صحابی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا: ((ہُوَ یَشْہَدُ أَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَ أَنَّہٗ قَدْ وُجِّہَ اِلٰی الْکَعْبَۃِ فَانْحَرَفُوْا وَ ہُمْ رُکُوْعٌ فِيْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ)) [1] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ وہ لوگ نمازِ عصر کے رکوع میں تھے کہ عین اسی حالت ہی میں قبلہ شریف کی طرف گھوم گئے۔‘‘ اندازہ فرمائیں کہ انھوں نے رکوع سے اٹھنے کا بھی انتظار نہیں کیا، چہ جائیکہ
[1] صحیح البخاري مع الفتح (13؍232)