کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 92
’’ اَللّٰہُ أَکْبَرُ! جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، جَائَ مُحَمَّدٌ ﷺ۔‘‘ ’’اللہ اکبر! اللہ کے رسول تشریف لے آئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم رنجہ فرما دیا ہے۔‘‘ حضرتِ صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ وَ تَنَازَعَ الْقَوْمُ أَیُّہُمْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ۔‘‘[1] ’’لوگوں میں اس بات پہ تنازع ہونے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس کی ضیافت میں آئیں ؟‘‘ جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ فَمَا رَأَیْتُ یَوْماً قَطُّ أَنْوَرَ وَلَا أَحْسَنَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَ اَبُوْ بَکْرٍ الْمَدِیْنَۃَ۔‘‘[2] ’’میں نے اتنا روشن اور خوبصورت دوسرا کوئی دن نہیں دیکھا جتنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مدینہ آمد کا دن تھا۔‘‘ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ فَمَا رَأَیْتُ أَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ فَرِحُوْا بِشَيئٍ فَرْحَہُمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔‘‘[3] ’’میں نے اہلِ مدینہ کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا جتنے خوش وہ اس دن تھے جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔‘‘ ۲۔ اطاعت و اتباعِ رسول: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلقِ خاطر کی علامات میں سے ایک نشانی یہ
[1] مسند أحمد (1؍155) وصححہ أحمد شاکر۔ [2] الفتح الرباني (20؍290) [3] صحیح البخاري (7؍260)