کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 91
((مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِیْ اِلَيَّ حُبّاً، نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ، یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ رَآنِيْ بِأَہْلِہٖ وَ مَالِہٖ))[1] ’’میری امت کے مجھ سے شدید محبت رکھنے والے لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اس بات کی خواہش رکھتے اور تمنا کرتے ہیں کہ انھیں چاہے اپنے سارے اہل و عیال اور دولت و مال کے عوض ہی میری زیارت نصیب ہوجائے تب بھی یہ سودا مہنگا نہیں۔‘‘ صحیح مسلم اور مسند احمد میں اس سے ملتی جلتی ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: ((مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِيْ لِيْ حُبّاً، قَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ [أَوْ یَخْرُجُوْنَ] بَعْدِیْ، یْوْدُّ أَحَدُہُمْ أَنَّہٗ فَقَدَ أَہْلَہٗ وَ مَالَہٗ وَ أَنَّہٗ رَآنِیْ)) [2] ’’میری امت میں سے مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور چاہیں گے کہ اگر اپنا تمام اہل و مال دے کر بھی میری زیارت کا شرف حاصل کرسکیں تو سودا مہنگا نہیں۔‘‘ جہاں تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال ہے تو اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے جانے اور انصارِ مدینہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور زیارت و دیدار سے خوش ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسند احمد کی ایک حدیث کے مطابق حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے لوگ چھتوں پر چڑھ چڑھ کر راستہ دیکھ رہے تھے، راستہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ یہ نعرے لگا رہے تھے:
[1] صحیح مسلم (4؍2178) رقم الحدیث [1832] [2] مسند أحمد (5؍156،170) صحیح الجامع، رقم الحدیث (1003) الصحیحۃ، رقم الحدیث (1418)