کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 79
بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تکمیلِ ایمان کی شرط یہ رکھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومن کو اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تر ہو جائیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ((یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَأَنْتَ أَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ اِلَّا مِنْ نَفْسِيْ)) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں سوائے میری جان کے۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیٓکَ مِنْ نَفْسِکَ)) ’’نہیں [ابھی تمھارا ایمان درجۂ کمال کو نہیں پہنچا] مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے [تم اس وقت تک کامل الایمان نہیں ہوسکتے ہو] جب تک کہ میں تمھیں تمھاری جان سے بھی زیادہ عزیز و محبوب تر نہ ہوجاؤں۔‘‘ اب حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ((فَاِنَّہُ الْآنَ وَ اللّٰہِ لَأَنْتَ أَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ)) ’’بلاشبہ اب، اللہ کی قسم! آپ مجھے میری جان سے بھی عزیز تر ہوگئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَلْآنَ یَا عُمَرُ)) [1] ’’اے عمر! اب [تمھارا ایمان درجۂ کمال کو پہنچا ہے]‘‘
[1] صحیح البخاري مع الفتح (7؍43) رقم الحدیث (3694)