کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 75
وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} [آل عمران: ۳۱] ’’ (اے پیغمبر! لوگوں سے )کہہ دیں کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میر ی پیروی کرو، اللہ بھی تمھیں دوست رکھے گا اور تمھارے گناہ معاف کر د ے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ امت مسلمہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی کی کوئی گستاخی کیسے گوارہ کرسکتی ہے ؟ اس کے جذبات مجروح کیوں نہ ہوں گے؟ اور وہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف غم و غصہ سے کیوں نہ بھڑک اٹھیں گے؟ جبکہ مسلم امہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا حکم خود ربِ کائنات نے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسری تمام محبتوں پر غالب نہ رکھوگے، اپنے اعزاء و اقارب اور تمام متاعِ دنیا سے زیادہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار نہ کرو گے تو پھر عتاب و عذابِ الٰہی کا انتظار کرو۔ چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا: {قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ} [التوبۃ: ۲۴] ’’(اے نبی!) کہہ دیں کہ اگر تمھارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز