کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 69
شیخ الاسلام فاتح قادیان حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۴۸ء) نے بنام ’’مقدّس رسول‘‘ دیا تھاجس کو مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اعزاز علی، مفتی کفایت اللہ، مولانا عبد الباری لکھنوی، مولانا عبد الشکور لکھنوی، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا ظفر علی خان اور خواجہ حسن نظامی رحمہم اللہ نے بہت پسند کیا۔ بعض منصف مزاج ہندؤوں نے بھی اس جواب کو سراہا۔امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۵۶ء) نے تو یہاں تک فرمایاکہ میں اس کتاب کا نام ’’مقدّس رسول‘‘ رکھنے پر قربان جاؤں۔
راج پال کی اس رسوائے عالم کتاب ’’ رنگیلا رسول‘‘ میں بھی آنحضرت فداہ ابی و امی و روحی و قلبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ساختہ تعریف اور خوبیاں بیان ہوگئی ہیں۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے:
’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تجارت کا حساب دیااور اپنی اجرت لے کر رخصت ہوئے۔ ان کی شرمیلی آنکھیں، ضرورت سے کم گو زبان اور قدرتی جمال، اس سے بڑھ کر بیوپار کا کھرا پن، پھر بے تکلفی اور سادگی، جو دل میں تھا وہی زبان پر تھا وہی عمل میں۔ بڑھیا [حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ] پر یہ بے ساختگی اثر کرگئی۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تنہائی کا شریک بنانا چاہا۔‘‘
۱۸۔ ۱۹۷۸ء میں ایک امریکی ادیب و مصنف مائیکل ہارٹ نے ’’تاریخِ انسانیت کی 100 مؤثر شخصیات‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، وہ اگرچہ عیسائی تھا لیکن اس نے منصفانہ و محققانہ نظر سے مطالعہ کیا تھا، لہٰذا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عہد ساز شخصیتوں میں سب سے پہلے نمبر پر ذکر کیا۔ اور