کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 65
سے ایک کتاب لکھی جس میں اس کی رگِ انصاف پھڑکی اور اس نے دل کھول کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس نے لکھا: ’’آئندہ سو سال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا مگر یہ موجودہ اسلام نہ ہوگا بلکہ وہ اسلام ہوگا جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانے میں دلوں، دماغوں اور روحوں میں جاگزیں تھا۔‘‘ اس طرح اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت نے اس کتاب کے تمام نسخے اکٹھے کرواکرانھیں نذرِ آتش کروادیا تھا۔ غرض برنارڈ شا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’انسانیت کا نجات دہندہ ‘‘قرار دیا اور لکھا: ’’ازمنۂ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں اور پادریوں نے جہالت و تعصّب کی وجہ سے مذہبِ اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، انھوں نے تو حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کے خلاف باضابطہ تحریک چلائی۔ انھوں نے حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا۔ میں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے، اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیت کے مخالف نہیں بلکہ وہ ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں ’’انسانیت کے نجات دہندہ‘‘ ہیں۔ اور اگر آج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لیں تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمام مسائل کو بخوبی حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، آپ امن و سلامتی کے پیامبر ہیں۔‘‘ ۸۔ ماضی قریب کے تمام سیاسی نظریات کو بہت قریب سے دیکھنے اور انسانی جان