کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 56
تَغْلُلْ وَ لَا تَجْبُنْ۔‘‘[1] ’’میں تمھیں دس باتوں کی وصیت و تاکید کرتا ہوں : عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھلدار درخت نہ کاٹنا، آباد کھیتوں اور مکانوں کو برباد نہ کرنا، بلا ضرورت کوئی بکری یا اونٹ ذبح نہ کرناسوائے کھانے کیلئے، کھجوریں نہ کاٹنا، نہ انھیں جلانا، مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور نہ بزدلی دکھانا۔‘‘ صرف بعض خاص حالات میں درخت کاٹنے جلانے کی اجازت بھی دی گئی ہے جیسے کہ سورۃ الحشر کی آیت (۵) اور صحیحین سے پتہ چلتا ہے۔[2] رحمۃ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہیں جو خونخوار لڑائیوں کو بند کرتے، حکمرانی کی آرزو یا توسیعِ ملک کی تمنا یا غلبہ وقوت کے اظہار یا جوشِ انتقام کے وفور کے اصول پر لڑائی کرنے کو قطعاً ممنوع ٹھہرتے۔ وہ جنگ کو صرف مظلوم کی امداد کا آخری ذریعہ، عاجزوں، درماندوں، عورتوں اور بچوں کو ظالموں کے ہاتھ سے چھڑانے کا وسیلہ اور مذاہبِ مختلفہ و ادیانِ متعددہ میں عدل و توازن قائم کرنے کا آخری حیلہ بتاتے ہیں۔ دنیا کا رحمدل سے رحم دل شخص بھی ان اصولوں کے لیے لڑائی کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا اور معمولی سمجھ کا انسان بھی ایسی لڑائی کو سراپا رحمت کہنے میں ذرا تأمل نہیں کرسکتا۔ اب اصولِ بالا پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اور رحمۃ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکام کو پڑھیں : { اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ . الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ
[1] موطأ الإمام مالک [447/2] [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (1746) المنتقیٰ مع النیل (4؍7؍250۔252)