کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 54
اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: ((وَاللّٰہِ یَا مُحَمَّدُ!مَاکَانَ عَلٰی الْأَرْضِ وَجْہٌ أَبْغَضَ اِلَيَّ مِنْ وَجْہِکَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْہُکَ أَحَبَّ الْوُجُوْہِ اِلَیَّ، وَ اللّٰہِ مَا کَانَ مِنْ دِیْنٍ أَبْغَض اِلَيَّ مِنْ دِیْنِکَ، فَأَصْبَحَ دِیْنُکَ أَحَبَّ الدِّیْنِ اِلَيَّ، وَ اللّٰہِ مَاکَانَ بَلَدٌ أَبْغَضَ اِلَيَّ مِنْ بَلَدِکَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُکَ أَحَبَّ الْبِلَادِ اِلَيَّ)) ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر مجھے سب سے زیادہ نفرت جس چہرے سے تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرا تھا جبکہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخِ انور میرے لیے دنیا کا محبوب ترین چہرہ ہوگیا ہے اور دنیا کا بدترین دین آپ کا تھا جو اب میرے نزدیک تمام ادیانِ عالم سے محبوب ترین دین ہوگیا ہے اور دنیا کے جس شہر سے مجھے سب سے زیادہ نفرت تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر مدینہ منورہ تھا جو اب مجھے سب سے محبوب ترین لگنے لگا ہے۔‘‘ اسی حدیث میں ان کے قبولِ اسلام کا بنیادی سبب بننے والے اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اس کی جزئیات بھی اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے ہمیشہ حسنِ سلوک فرمایا۔ چنانچہ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد جب عمرہ کی ادا ئیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو مشرکینِ مکہ میں سے کسی نے کہہ دیا کہ صابی [بے دین] ہوگئے ہو؟ انھوں نے جواباً فرمایا: نہیں بلکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوا ہوں۔ اور ساتھ ہی فرمایا: اللہ کی قسم ہے کہ آج کے بعد نجد و بنی حنیفہ سے گندم کا ایک دانہ بھی مکہ