کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 348
’’کوئی ذمّی شخص جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی سے بازنہ آئے تو اس کا معاہدہ ختم اور اس کا قتل حلال و جائز ہو جاتا ہے۔‘‘ انھی خیالات کا اظہار امام خطابی نے کیا ہے اور اسے ہی امام مالک و شافعی اور احمد بن حنبل کا قول بتایا ہے۔ اور یہ بھی ذمّی کے سلسلہ میں ہے جبکہ مسلمان کے قتل پر تو انھوں نے اجماع نقل کیا ہے۔ (معالم السنن) غرض گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی عقوبت و سزا کے بارے میں بعض ’’روشن خیال ‘‘ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے پھررہے ہیں کہ اس کی سزا قتل نہیں کیونکہ اس کا آغاز ہی عباسی دور میں ہوا تھا، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو آزادیٔ صحافت کے بھی منافی ہے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بڑے رحم دل بلکہ رحمۃ لّلعالمین تھے، اپنے خون کے پیاسوں کو بھی معاف فرمادیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو قتل کرنے کا کیسے حکم فرماسکتے ہیں ؟ یہ اور اسی قسم کے تمام اعتراضات و اشکالات گزشتہ صفحات میں ذکر کیے گئے دلائلِ قرآن و سنت سے رفع ہوجاتے ہیں۔ وَلِلّٰہِ اْلحَمْدُ وَ لَہٗ الْمِنَّۃُ اور اس کے ساتھ ہی یہ موضوع ایک حد تک اختتام پذیر ہوا۔ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ، وَ صَلّٰی اللّٰہُ وَ سَلّمَ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِـہٖ أَجْمَعِیْنَ وَ مَنْ تَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلیٰ یَوْمِ الدِّیْنِ۔