کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 346
اور آپ نے واقعی بعض لوگوں کی توبہ و معافی کو قبول بھی فرمایا۔[1] لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے کے لیے یہ روا نہیں ہے کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے بھی زیادہ واجب ہو گیا ہے لہٰذا توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو پانے کی شکل میں اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اس پر توہینِ رسالت کی حد ثابت ہونے پر اسے قتل کیا جائے۔ قرآن و سنت، اجماعِ صحابہ اور علمائِ امت سب اس پر متفق ہیں۔ اب رہے بعض لا دین عناصر یا لبرل کہلوانے والے لوگ تو وہ اسے ایک جذباتی مسئلہ سمجھتے اور گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سزا کو شدّت پسندی قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا مسئلہ جذباتی نہیں بلکہ خالص شرعی و علمی مسئلہ ہے کیونکہ اسلام کا تو مزاج ہی مرنجاں مرنج ہے حتیٰ کہ اسلام تو اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ کو بھی گالی نہ دو تاکہ وہ عناد و ضد میں آکر تمھارے حقیقی معبودِ بر حق کو نہ گالی دینے لگیں۔ چنانچہ سورۃ الانعام میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًما بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} [الأنعام: ۱۰۸] ’’اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں اُن کو بُرا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بغیر سمجھے بُرا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (اُن کی نظروں میں )
[1] تفصیل کے لیے دیکھیے: الصارم المسلول۔