کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 345
وہ مزید فرماتے ہیں :
’’جو کافر ذمّی عہد شکنی کرے یا اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز ایجاد کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسے قتل ہی کرنا چاہیے۔ انھیں عہد و ذمّۂ امان اس لیے تو نہیں دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کرتے پھریں۔ اور شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی دلیل کے طور پر انھوں نے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعدد واقعات پیش کیے ہیں۔‘‘[1]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والا شخص کافر اور واجب القتل ہے اور اس کی توبہ و معافی کے باوجود اس پر سزائے موت کی شرعی حد نافذ کی جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اور تو اور حرم شریف میں پائے جانے کی شکل میں بھی قتل کردینے کے احکام جاری فرمائے تھے۔ اور ابن خطل کو غلافِ کعبہ سے چمٹنا بھی قتل سے نہ بچا سکا تھا جیسا کہ کتبِ تاریخ و سیرت اس پر شاہد ہیں۔ اب رہا معاملہ اس کی توبہ و معافی کا تو یہ اس کے اور اس کے رب کے ما بین ہے۔ ہاں ! اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود زندہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو معاف کر سکتے تھے بقول امام ابن تیمیہ :
’’ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ لَہٗ أَنْ یَّعْفُوَ عَمَّنْ شَتَمَہٗ وَ سَبَّہٗ فِيْ حَیَاتِہٖ وَ لَیْسَ لِأُمَّتِہٖ أَنْ یَّعْفُوَ عَنْ ذٰلِکَ۔‘‘
’’یہ حق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ اپنی زندگی میں سب و شتم کرنے والے جس شخص کو چاہیں معاف کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنے والے کسی شخص کو معاف کرے۔‘‘
[1] الصارم المسلول (ص: 4، 5)