کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 344
لگائی وہ تمام علماء کے اتفاق سے کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرلے تو اس سے سزائے قتل زائل نہیں ہوگی کیونکہ اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے کی سزا قتل ہے اور تہمت کی سزا توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۃ التوبۃ کی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ طَعَنُوْا … أَيْ عَابُوْہُ وَ انْتَقَصُوْہُ وَ مِنْ ہُنَا أُخِذَ قَتْلُ مَنْ سَبَّ الرَّسُوْلَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ أَوْ مَنْ طَعَنَ فِيْ دِیْنِ الْاِسْلَامِ أَوْ ذَکَرَہٗ بِنَقْصٍ۔‘‘[1]
’’یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگایا اور تنقیص و تحقیر کی اور اسی سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کے قتل کی سزا اخذ کی گئی ہے۔ اسی طرح جس نے دین اسلام میں طعن کیا اور اسے تحقیر و تنقیص کے ساتھ ذکر کیا اس کی سزا بھی قتل ہے۔‘‘
۴۔ اب رہے ائمہ و فقہائِ حنابلہ تو خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد و سزائے قتل کے قائل تھے وہ مسلمان ہو یا کافر و ذمّی۔ چنانچہ حنبل کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سنا ہے:
’’کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِيَّ ﷺ أَوْ تَنَقَّصَہٗ۔ مُسْلِماً کَانَ أَوْ کَافِراً۔ فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ، وَ أَرَیٰ أَنْ یُّقْتَلَ وَ لَا یُسْتَتَابَ۔‘‘
’’ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص و تحقیر کرے اس کی سزا قتل ہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔ اور میری رائے یہ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے اور اس سے توبہ نہ کروائی جائے۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر (2؍447)