کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 34
’’آگ کے خالق اللہ تعالیٰ کے سواکسی کو لائق نہیں کہ کسی کوآگ کے ساتھ عذاب دے۔ ‘‘ ۲۔ ذبح کیے جانے والے جانوروں کے لیے رحمت: 7۔ حدتو یہ ہے کہ جس جانور کوذبح کرنا مقصود ہو اس کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم واحسان کی تعلیم فرمائی ہے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی تعلیمات کی روشنی میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی مسنون کیفیات وطریقہ کچھ یوں ہے کہ جانورکو ذبح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروں سے دور، جہاں سے وہ دیکھ نہ سکتا ہو، اپنی چھری کواچھی طرح تیز کرلے۔ جانور کی نظروں سے دور اور اوجھل اس لیے کہ ذبح ہونے سے قبل ہی چھری تیز ہوتے دیکھ کر اسے تکلیف نہ پہنچے، اورچھر ی کوتیز اس لیے کرلے تاکہ جلد ذبح ہوجانے کی شکل میں جانور کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے۔ اس سلسلہ میں معجم طبرانی کبیر و اوسط اورسنن بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹاکر، اس کی گردن پر اپنا پائوں رکھے اپنی چھری تیز کررہا تھا، اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اَفَلَا قَبْلَ ھَذَا! أَتُرِیْدُ أَنْ تُمِیْتَھَا مَوْتَتَیْنِ؟))[1] ’’کیا یہ کام اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ کیا تو اس بیچاری کی دومرتبہ جان لینا چاہتا ہے؟‘‘
[1] المعجم الکبیر (11؍333) الأوسط للطبرانيبحوالہ مجمع الزوائد (4؍36) بیہقی (9؍280)