کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 339
’’ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِخْتَلَفَ فِيْ وُجُوْبِ قَتْلِہٖ، وَ لَٰکِنْ اِذَا کَانَ السَّابُّ ذِمِّیّاً فَقَدْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَقَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ: مَنْ شَتَمَ النَّبِيَّ ﷺ مِنَ الْیَہُوْدِ وَ النَّصَارٰی قُتِلَ اِلَّا أَنْ یُّسْلِمَ، وَ کَذٰلِکَ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: یُقْتَلُ الذِّمِّيُّ اِذَا سَبَّ النَّبِيَّ ﷺ وَ تَبْرَأُ مِنْہٗ الذِّمَّۃُ، وَ احْتَجَّ فِيْ ذٰلِکَ بِخَبَرِ کَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، وَ حُکِیَ عَنْ أَبِيْ حَنِیْفَۃَ أَنَّہٗ قَالَ: لَا یُقْتَلُ الذِّمِّيُّ بِشَتْمِ النَّبِيِّ ﷺ مَا ہُمْ عَلَیْہِ مِنَ الشِّرْکِ أَعْظَمُ۔‘‘ ’’میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے ایسے آدمی کے قتل کیے جانے میں اختلاف کیا ہو لیکن اگر گالی دینے والا کافر و ذمّی ہو تو اس کے بارے میں اختلاف ہے: امام مالک بن انس فرماتے ہیں : ’’ یہود و نصاریٰ میں سے جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اسے قتل کیا جائے گا سوائے اس کے کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ اسی طرح ہی امام احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے،جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی ذمّی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا اور انھوں نے دلیل کے طور پر کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا واقعہ ذکر کیا ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے: ’’ذمّی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے پر قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ جس شرک پر قائم ہیں وہ اس سبّ و شتم سے بھی بڑا جرم ہے۔‘‘[1] ان ائمہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
[1] معالم السنن للخطابي [255/3/2] مع مختصر أبي داود للمنذري [6؍199]