کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 333
عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اور کبھی اپنے مومن بندوں کے ہاتھوں انھیں سزا دلواتا ہے۔‘‘[1] ۶۔ اہلِ سیرت و سوانح کے یہاں معروف و مستفیض واقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن خطل کی دو گویّا کنیزوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایاتھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں لکھے ہوئے ابن خطل کے شعر گایا کرتی تھیں، ان میں سے ایک کا نام فرتنیٰ اور دوسری کا نام قرینہ یا ارنب تھا۔ اور ان میں سے ایک کو قتل کردیا گیا جبکہ فرتنیٰ ایمان لے آئی اور اسے امان دے دی گئی۔اور وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک زندہ رہی۔[2] ان دو کنیزوں کے قتل کے حکم میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ انھیں ان کے جرم توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا تھا ورنہ صحیحین و سنن کے حوالے سے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف امن بلکہ جنگ کی حالت میں بھی غیر محارب عورتوں اور بچوں و غیرہ کو قتل کرنے سے منع فرما رکھا تھا۔ ۷۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے کی سزا قتل ہونے کی ایک دلیل عبد اللہ بن خطل کا واقعہ بھی ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم و غیرہ کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرِ اقدس پر لوہے کا خود پہنا ہوا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ البتہ چند لوگوں کے نام لے لے کر فرمایا:
[1] الصارم المسلول (ص: 117) [2] طبقات ابن سعد، ذکر فرتنیٰ فقط، الصارم المسلول (ص: 110، 126 تا 128)