کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 331
’’اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لیے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لیے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘ اس کی ایسی ہی مذکورہ گستاخیوں کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم فرمایا تھا۔ ایک اور کاتبِ وحی کی ایسی گستاخیوں اور ارتداد کا تذکرہ ہم نے صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے کیا تھا جس کی گستاخی کے نتیجہ میں مسند احمد کی صحیح سند سے ثابت روایت کے مطابق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((اِنَّ الْأَرْضَ لَا تَقْبَلُہٗ))[1] ’’زمین اسے قبول نہیں کرے گی۔‘‘ اور واقعی اسے زمین نے بھی جگہ نہیں دی تھی اور بار بار قبر نے اسے باہر نکال پھینکا تھا۔ اس کا واقعہ گستاخانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ اسے قبر کا قبول نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی یہ سزا محض مرتد ہونے پر نہیں تھی کیونکہ کتنے ہی لوگ مرتد ہوئے مگر وہ اس سزا سے دوچار نہ کیے گئے لیکن اس کے ساتھ ایسا ہوا کیونکہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں
[1] مسند أحمد و صححہ ابن تیمیۃ، الصارم (ص: 122)