کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 330
سنن ابی داود میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ ابن ابی سرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کیا کرتا تھا اور شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہوگیا اور کفار سے جا ملا تھا۔ امامِ سیرت ابن اسحاق کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ابن ابی سرح مسلمان ہوا اور کاتب وحی بن گیا اور پھر مرتد ہوا اورمکہ جا نکلا۔ پھر اس نے یہ گستاخیاں شروع کردیں کہ میں جدھر اور جیسا چاہتا تھا انھیں [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو] پھیر لیتا، وہ مجھے کچھ لکھنے کو کہتے اور میں کہتا کہ یا ایسے ایسے لکھوں تو وہ اسی پر موافقت کردیتے۔ آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ’’علیمٌ، حلیمٌ‘‘ لکھواتے اور میں کہتا کہ ’’عزیزٌ، حکیمٌ‘‘ لکھ لوں تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیتے کہ دونوں طرح سے ایک ہی بات ہے۔ اور اس نے اہلِ مکہ کو یہ تک کہہ دیا کہ اللہ کی قسم! میں چاہوں تو میں بھی ایسی باتیں کہہ سکتا ہوں جیسی محمد کہتا ہے، میں بھی ویسی ہی وحی پیش کرسکتا ہوں جیسی وہ پیش کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس پر بھی وحی نازل ہوتی ہے اور وحی میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اسے میں ہی پورا اور صحیح کرتا ہوں۔ ابن اسحاق نے شرحیل بن سعد کے حوالے سے لکھا ہے کہ سورۃ الانعام کی آیت اسی ابن ابی سرح کے بارے ہی میں نازل ہوئی ہے جس میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ} [الأنعام: ۹۳]