کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 328
((لَا وَ اللّٰہِ! مَا کَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ)) [1] ’’نہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ مقام دوسرے کسی کے لیے نہیں ہے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ امام ابو داود، اسماعیل القاضی اور قاضی ابو یعلی و غیرہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے مسلم و کافر ہر شخص کے قتل کے جواز کی دلیل اخذ کی ہے جو کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے، اور لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کے قتل کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تاکید ی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت وفات کے بعد تو زندگی سے بھی بڑھ کرہے۔[2] ۵۔ اہلِ علم نے شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالت کے درپے ہونے والے بدبخت کی سزائے قتل کی پانچویں دلیل کے طور پر وہ حدیث ذکر کی ہے جو کہ سنن ابی داود میں صحیح سند کے ساتھ، اسی طرح سنن نسائی، مستدرک حاکم، مسند احمد و ابو یعلی اور طبقات ابن سعد وغیرہ میں وارد ہوئی ہے کہ فتح مکہ کے دن عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گئے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! عبد اللہ سے بیعت لے لیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ نگاہیں اٹھاکر اسے دیکھا اور بیعت کرنے سے
[1] سنن أبي داود، سنن النسائي، الصارم المسلول (ص:93) و صححہ ابن تیمیۃ [2] الصارم (ص: 94)