کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 324
البتہ عام مومن عورتوں پر تہمت اور وعید و سزا کا ذکر سورۃ النور ہی میں ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے : { وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ . اِِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} [النور: ۴، ۵] ’’اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسّی دُرے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بدکردار ہیں۔ ہاں جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو اللہ (بھی) بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن پر تہمت لگانے والے کے لیے توبہ کاذکر نہیں ہے جبکہ عام مومنات پر بہتان تراشی کرنے والے کے لیے توبہ کا ذکر آیا ہے اور یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[1] ۵۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی و گستاخی، ناموسِ رسالت پر کیچڑ اچھالنے اور کوئی اہانت آمیز انداز اختیار کرنے والے کے کفر و ارتداد کی پانچویں دلیل سورۃ النور کی آیت ہے جس میں ارشادِ الٰہی ہے : { لاَ تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} [النور: ۶۳]
[1] الصارم المسلول (ص: 45)