کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 311
ٹھیک ہے‘‘ ہر کوئی آزاد ہے لیکن ایسی مادرپدر آزادی کو نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلاکت کا باعث قرار دیا ہے خصوصاً جب ایسی آزاد روی کو روکنے والا اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنے والا بھی غافل ہوجائے اور اس واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگے تو پھر آزاد روی کا انجام سب کی ہلاکت بتایا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف، سنن ترمذی اور مسند احمد میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَیٰ حُدُوْدِ اللّٰہِ وَ الوَاقِعِ فِیْہَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اِسْتَہَمُوْا عَلَیٰ سَفِیْنَۃٍ، فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ أَعْلَاہَا وَ بَعْضُہُمْ أَسْفَلَہَا فَکَانَ الَّذِیْنَ فِيْ أَسْفَلِہَا إِذَا اِسْتَقَوْا مِنَ الْمَائِ مَرُّوْا عَلَیٰ مَنْ فَوْقَہُمْ فَقَالُوْا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِيْ نَصِیْبِنَا خَرْقاً وَ لَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَاِنْ تَرَکُوْہُمْ وَ مَا أَرَادُوْا ہَلَکُوْا جَمِیْعاً وَ اِنْ أَخَذُوْا عَلَیٰ أَیْدِیْہِمَ نَجَوْا وَ نَجَوْا جَمِیْعاً)) [1] ’’اللہ کی حدود کا پاس رکھنے والوں اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کی مثال اس قوم کی سی ہے جو ایک بحری جہاز میں سوار ہوئے۔ کچھ لوگوں کو جہاز کے عرشے [اوپر والی منزل] پر جگہ ملی اور بعض کو نچلی منزل پر۔ نیچے والوں کو پانی کی ضرورت پڑتی تو وہ اوپر جاکر لاتے۔ انھوں نے سوچا کہ ہم اوپر والوں کو تکلیف و اذیّت سے بچانے کے لیے نیچے والے اپنے حصّے میں کہیں سوراخ کرکے پانی حاصل کر لیتے ہیں۔ اب اگر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (2493، 2686) سنن الترمذي، رقم الحدیث (2173) مسند أحمد (4؍268، 269، 270، 273)