کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 308
سزا سنادی حالانکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے۔ اور وہ آسٹریلیا کا باشندہ بھی نہیں مگر اسے آسٹریلیا میں سزادی گئی اور اسرائیل میں باقاعدہ یہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص ہولو کاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے کہ اسے اغوا کرکے لے آئے اور اسے سزا دے۔ آج کم ازکم سات ممالک میں قانونی طور پر ہولو کاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے جبکہ دوسری طرف عیسائیت کے بعد دنیا کے سب سے پہلے اور بڑے دینِ اسلام کے مقتدا و پیشوا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو بھی بد زبانی اور سوقیانہ پن اختیار کیا جائے اسے آزادیٔ صحافت، آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کی آڑ میں جائز و روا قرار دیا جارہا ہے!! ۲۔ اسی طرح یورپ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین (BLASPHAMY)ایک جرم ہے اور اسی بدنامِ زمانہ اخبار جیلینڈز [جیلانو] پوسٹن کے پاس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی توہین آمیز کارٹون لائے گئے تو اس نے یہ کہہ کر شائع کرنے سے انکار کر دیا کہ اس سے عیسائی عوام میں اشتعال پھیل سکتا ہے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری آئی تو باقاعدہ کارٹون بنوائے اور چھپوائے گئے۔ ۳۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یورپ میں ایک عام آدمی اور ہر کس و ناکس کی توہین کرنا جرم ہے لیکن آزادیٔ اظہار و رائے اور آزادیٔ صحافت کے نام سے اسلام کو تختۂ مشق بنانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ ۴۔ انگلستان کے ایک اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس پر ساری دنیا