کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 305
بیان یوں لکھا کہ ملکہ نے اپنے عوام کو اسلام دشمنی کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے: “ Show Our Opposition To Islam” ’’آیئے! اسلام کے خلاف ہم اپنی مخالفت کھل کر ظاہر کریں۔‘‘[1] ستمبر ۲۰۰۵ء ہی میں ڈنمارک پیپلز پارٹی کی ایک سرکردہ رکن لوٹس فریورٹ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’ڈنمارک میں پیدا ہونے والے مسلم نوجوان بھی بنیاد پرستانہ تعلیم سے آراستہ ہیں جو ہمارے معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتی، چونکہ ہمارا قانون دشمنوں کو سرِعام قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے ان مجرموں سے نپٹنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انھیں حوالۂ زنداں کردیا جائے یا پھر انھیں روس کے جیل خانوں میں بھیج دیا جائے۔‘‘ جبکہ اسی عورت نے ایک دوسرے مضمون میں مسلمانوں کو ایسے کینسر سے تشبیہ دی جس کا علاج آپریشن کے سوا کچھ نہیں۔ اور ستمبر ۲۰۰۵ء ہی میں ان کے ایک ریڈیو چینل نے کہا: ’’مسلمان کا واحد علاج یہ ہے کہ اگر ہم انھیں ہلاک نہیں کرسکتے تو کم از کم یورپ سے باہر تو ضرور دھکیل دیں۔‘‘[2] غرض پہلے اس ایک اخبار نے ۱۲ کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کی دلآزاری کی مگر مسلم دنیا کا ردّ عمل نرم رہا لہٰذا اس جلتی آگ کو مزید بھڑکانے، اس پر تیل ڈالنے اور مزید تیز کرنے کے لیے جنوری ۲۰۰۶ء میں ۲۲ ممالک کے ۱۷۵ اخبارات نے انھیں دوبارہ شائع کیا اور ۲۰۰ ریڈیو ٹی وی چینلوں پر انھیں دوبارہ
[1] بحوالہ حرمتِ رسول نمبر ماہنامہ الدعوۃ لاہور، جلد: 17، شمارہ: 3، مارچ 2006ء ۔ [2] بحوالہ ماہنامہ ’’و الضحیٰ‘‘ گوجرانوالہ جلد: 16، شمارہ: 3، 4، مارچ اپریل 2006ء۔