کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 299
(۳۰) سے زیادہ زبر دست کتابیں لکھیں بلکہ اپنے بکثرت مضامین میں اس کی خوب خوب خبر لی اور اس کے جھوٹے دعووں کی اچھی طرح قلعی کھولی، اور بالآخر ’’فاتحِ قادیان‘‘ قرار پائے کیونکہ انھوں نے نہ صرف مرزا قادیانی کا تحریری تعاقب جاری رکھا بلکہ انھوں نے مباہلہ کی دعوت بھی دی لیکن وہ ہمیشہ اس سے راہِ فرار اختیارکرتاگیا۔
مولانا امرتسری مرزا قادیانی کو مناظرے، مقابلے اور مباہلے کی دعوت دیتے ہی رہا کرتے تھے اور وہ حیلوں بہانوں سے فرار اختیار کرجایا کرتا تھا، مولانا یہ بھی کہا کرتے تھے ؎
مجھ سا مشتاق جہاں میں کوئی پاؤگے نہیں
گرچہ ڈھونڈھو گے چراغِ رخِ زیبا لے کر
نہ تیر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور مباہلہ کے لیے تووہ صرف ایک مرتبہ ہی ۱۸۹۳ء میں امرتسر میں میدان میں آیا اور اسے اس وقت میدان میں لانے کی سعادت مولانا عبد الحق غزنوی کے حصے میں آئی تھی۔[1]
تاہم فاتحِ قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مرزاکے مابین اللہ تعالیٰ سے فیصلہ لینے کے لیے مرزا قادیانی نے ایک اشتہار ۱۹۰۷ء میں شائع کیاجو ’’ آخری فیصلہ ‘‘ کے زیرِ عنوان تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ سے صادق کی زندگی میں کاذب کی موت کی دعاء مانگی گئی تھی۔ چنانچہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو اللہ تعالیٰ
[1] مکتوبات أحمدیہ، (جلد: 5، نمبر:3، ص: 121۔122) بحوالہ تحریکِ ختم نبوت (3؍15۔ 16از ڈاکٹر بہاء الدین)