کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 297
نگرانی میں یہ پودا پروان چڑھا۔ اُس خبیث کافر نے اپنے ماننے والوں کو یہ وصیت کی تھی کہ جب مسلمانوں اور انگریزوں میں جنگ ہو تو تم انگریزوں کا ساتھ دینا۔ ’’دمشق [شام] میں بھی ان کے تھوڑے سے لوگ تھے اور انھوں نے شہر حلب میں اپنا زہر پھونکنے کی بھر پور کوششیں کیں اور اپنا ایک مبلّغ بھی بھیجا جس کا نام بھی غلام احمد تھا مگر اس کے مقابلے کے لیے ہمارے سلفی العقیدہ لوگوں کی جماعت بھی حرکت میں آگئی اور اللہ کے فضل و کرم کے بعد بعض اہلِ علم اور حکومت کے تعاون سے ۱۳۷۱ھ بمطابق ۱۹۵۱ء میں اس کافر و خبیث مبلّغِ قادیانیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور ہر جگہ اس کا تعاقب کیا اور اس کی کافرانہ و فاجرانہ دعوت و تبلیغ کے تمام راستے بند کر دیے۔ اللہ نے ہمیں فتح و نصرت سے نوازا اور اسے ہم نے حلب [شام] سے ایسا نکالا کہ وہ کبھی دوبارہ بھی نہ آسکے گا۔ ان شاء اللہ۔ یوں اس خبیث و کافر کی تبلیغِ قادیانیت کی نجاست و گندگی سے حلب کی سرزمین پاک ہوگئی ہے۔‘‘[1] یہ تو مرزا قادیانی اور قادیانیت کے بارے میں ملکِ شام کے ایک عالم کی نگارشات تھیں جبکہ اس شجرۂ خبیثہ کے اصل وطن ہندوستان [پاک و ہند] کے بکثرت علمائِ کرام نے اس مسیلمۂ پنجاب کی مذمت و تردید میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اور حکومتِ پاکستان نے تو اپنے دستور ساز ارادہ ’’نیشنل اسمبلی‘‘ کے ذریعے مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والے قادیانیوں کے کافر ہونے کے بارے میں باقاعدہ ایک قانون پاس کیا ہے جس کی تفصیلات بھی مولانا بشیر احمد صاحب
[1] حاشیہ مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (3؍ 374۔375)