کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 295
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان آیات میں ’’ معقِّبات‘‘ [چوکیدار] اللہ کی طرف سے مامور (فرشتے) ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں اور صواعق [جلانے والی بجلیوں ] سے آسمانی بجلیاں مراد ہیں جن میں ہی سے ایک نے اربد کو جلا کر خاکستر کیا تھا۔[1] ۴۰۔ گستاخانِ رسول کے سلسلہ ہی میں علامہ حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’الدرر الکامنۃ في أعیان المائۃ الثامنۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک منگول شہزادہ پادریوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر عیسائی ہوگیا۔ اسی خوشی میں عیسائیوں نے ایک بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا جس میں بہت سارے عیسائی پادری بطورِ خاص شریک ہوئے، ان میں سے ایک پادری تقریر کرنے لگا، دورانِ تقریر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا شروع کردی تو قریب ہی موجود ایک شکاری کتے نے بھونکنا شروع کردیا۔ جب وہ عیسائی بد زبانی سے باز نہ آیا تو وہ کتا اس پر جھپٹ پڑا مگر لوگوں نے اسے بچا لیا، اسے صرف بعض خراشیں ہی آئیں۔ حاضرین میں سے بعض نے کہا کہ تم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء کیااور مذاق اڑایا ہے لہٰذا اس کتے نے تم پر حملہ کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں، یہ کتا بڑا خود دار واقع ہوا ہے، میں دورانِ تقریر میں اشارے کر رہا تھا تو یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ شاید میں اسے برا بھلا کہہ رہا ہوں اور اسے مارنا چاہتا ہوں، اس لیے اس نے حملہ کیا ہے، ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب اس نے پھر تقریر میں بدزبانی شروع کردی تو کتے نے زنجیر توڑی اور یوں حملہ آور ہوا کہ سیدھا اس عیسائی گستاخ کو گلے سے جا دبوچا
[1] سیرۃ ابن ہشام (4؍159)