کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 292
پہلے ہی مقامِ سرفِ پر یہ جھوٹا مدعی ٔ نبوت واصلِ جہنم ہوگیا۔[1]
۳۸۔ عامر بن طفیل اور اس کے ساتھی :بنی عامر کا ایک وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان میں ہی عامر بن طفیل بھی تھا جو کہ وفد کا ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے تین سرداروں میں سے ایک تھا جبکہ دوسرے دو میں سے ایک اربد بن قیس اور دوسراجبار بن سلمیٰ تھا۔ وفد کی حاضری کے دوران اس عامر نے غداری کا پروگرام بنا رکھا تھا اور اربدکو سکھلا رکھا تھا کہ میں اس شخص [حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ] کو باتوں میں الجھا کر اس کا خیال بٹا دوں گا اور تم فوراً تلوار کا وار کر کے اسے قتل کردینالیکن اللہ کا وعدۂ تحفظِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے جو اس نے سورۃ المائدۃ میں فرما رکھا ہے:
{ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ} [المائدۃ: ۶۷]
’’اے پیغمبر! جو ارشادات آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دیں اور اگر ایسا نہ کیا تو آپ اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘
جب یہ لوگ ناکام واپس ہوئے تو عامر نے اربد سے پوچھا کہ تم نے طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کوقتل کیوں نہ کیا؟ تو اس نے بتایا کہ میں جب بھی تلوار اٹھاتا میرے سامنے وہ نہیں بلکہ تم ہوتے تھے لہٰذا میں تم پر کیسے تلوار چلاتا؟
ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے کیا گیا انتظامِ تحفظ تھا۔جب یہ غدار نبی
[1] سیرت ابن ہشام (3؍31)