کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 290
یمن کے مختلف علاقوں کے امراء نے تعاون کی یقین دہانی کروادی اور مسلمان اس کا خاتمہ کرنے کے لیے متفق ہوگئے، اور بالآخر ایک رات جبکہ وہ اپنے نرم ریشمی بستر پر سویا ہوا تھا بعض مسلمان اس کی مسلمان بیوی ازاذ اور اس کے عمزاد و رضاعی بھائی حضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ کے تعاون سے اس کے محل میں گھس گئے اور اسے قتل کرکے اس کا سر کاٹ لیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ حضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ ہی نے اسود عنسی کو قتل کیا تھا۔[1]
اور اس امکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا تعاون ان کے دوسرے ساتھیوں نے بھی کیا ہو، چنانچہ جب صبح ہوئی تو اس کے قاتلوں میں سے ایک شخص حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ یا حضرت قیس رضی اللہ عنہ نے اس کے گھر کی فصیل پر کھڑے ہوکر نعرے لگانے شروع کردیے اور جب لوگ اکٹھے ہوگئے تو کہا:
((أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ أَنَّ عَبْہَلَۃَ کَذَّابٌ))
’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولِ بر حق ہیں اور عبہلہ [اسود عنسی] کذّاب و جھوٹا ہے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کا کٹا ہوا سر لوگوں کی طرف پھینک دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے تمام ساتھیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھے ہی آگئے اور اسلام و اہلِ اسلام کا بول بالا اور جھوٹے مدعی نبوت کا منہ کالا ہوگیا۔اس کے دعوائے نبوت اور یمن پر قبضہ و غلبہ کی کل مدت صرف تین اور ایک قول کے مطابق چار ماہ تھی۔[2]
[1] التقریب (ص: 786) بتحقیق الشیخ أبو الاشبال شاغف۔
[2] البدایۃ (6؍307۔310) خروج الأسود العنسي